علم بڑی دولت ہے

 علم ایک ایسا خزانہ ہے جس کی چوری کا کوئی خوف نہیں ہوتا اور استعمال سے کم بھی نہیں ہوتا۔ حضور اکرم نے ارشاد

فرماياة

علم حاصل کرو خواہ اس کے لئے تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑ حقیقتا علم ایک ایسی قوت ہے جو دنیا کی تمام تر قوتوں سے افضل ہے اور جس کے زوال کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ قدرت کے سربستہ رازوں کا انکشاف علم ہی کی بدولت ہوا۔ علم کی وجہ سے دنیا کی تمام وسعتیں آج کے انسان کے سامنے سمٹ گئیں ہیں۔ دوریاں قربتوں میں بدل گئی ہیں، انسان ہوا پر قابو پا چکا ہے۔ فضا میں پرواز کر سکتا ہے۔ آج کا انسان خلاء کی وسعتوں پر حاوی ہے، چاند پر اپنی میت کا ہنڈا گاڑھ چکا ہے، علم ہی کی بدولت وہ مظاہر قدرت جنہیں وہ پوجتا تھا۔ آج اس کی خاک راہ ہیں، علم ہی کا کرشمہ ہے کہ جس پر عمل کر کے آج ہم گھر بیٹھے دیگر ممالک کے حالات سنتے اور دیکھتے ہیں اور مزید معلومات حاصل کر رہے ہیں۔ 

یہ علم کا فیض ہے کہ انسان کا نام مرنے کے بعد بھی روشن رہتا ہے۔ ہمارے اور دیگر اقوام کے عظیم قائدین نے علم کے ذریعے ہی قوم کی بچی اور پر خلوص خدمت کی ہے اور آج بھی ان کے نام زندہ و جاوید ہے۔ بزرگان دین بھی علم کی شمع سے لوگوں کو سیدھی ارنچی راود کھاتے رہے۔ علم کی بدولت ایجادات اور انکشافات کا ایک لامتناہی سلسلہ وجود میں آیا ہے جس کا دوسرا کنارہ نظر سے دور اور بعید از قیاس ہے۔

دنیا کی تمام تر ترقی علم پر منحصر ہے۔ علم ہی دراصل ایک انسان کو انسانی صلاحیتوں سے نوازتا ہے۔ جس کی بدولت انسان نیکی اور بدی میں تمیز کر سکتا ہے۔ علم ہی وہ ذریعہ ہے جس کی بدولت انسان دوسرے انسانوں پر سبقت لے جاتا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب انسان بجلی کی گرج سے ڈرتا تھا اور آج وہی انسان اس پر قابو پا چکا ہے۔ اسے اپنے قبضے میں کر چکا ہے۔ بجلی کو کئی اہم کاموں میں استعمال کیا جارہا ہے۔ علم کی بدولت انسان نے اپنے لئے تفریح طبع کی سہولتیں بھی پیدا کر لیں ہیں۔ علم ایسا نور ہے جس سے جہالت اور گمراہی کی تاریکیاں دور ہو جاتی ہیں۔ علم کی بدولت انسان کی چشم بصیرت روشن ہو جاتی ہے جس کی بدولت اس میں نیکی و بدی اور حق باطل کا شعور پیدا ہوتا ہے۔ علم ایسا بیش بہا جو ہر ۔ علم سے انسان کے اطوار شائستہ اور اخلاق پاکیزہ بن جاتے ہیں۔ وہ دل و دماغ کو جہالت کے گہرے اندھیروں اور گہرائیوں سے نکال کر اس مقام تک پہنچادیتا ہے۔ جہاں حسد و بغض ، دشمنی اور لا پلی کا گزر نہیں ہوتا۔ بلکہ انسان کو نیکی، خلوص، فیاضی اور دوستی جیسی عظیم صفات عطا کرتا ہے۔

دنیا کی یہ تمام تر ترقی علم ہی کی بدولت ہے علم کی بدولت ہی آج کا انسان خلاء کو مسخر کر رہا ہے۔ علم انسان کو جرات، ہمت ، استقلال، تدبر وبردباری اور ہر قسم کی عقدہ کشائی کی صلاحیت بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان نے دنیا کا چپ چپہ چھان مارا، قطب شمالی سے لیکر قطب جنوبی تک زمین کو رند تا چلا گیا۔

علم ہی انسان کو باعزت ، باوقار اور عظیم تر بناتا ہے اس کی بدولت انسان اپنی اور دوسروں کی خدمت کرتا ہے۔ اب تک جتنے بھی بڑے آدمی گزرے ہیں وہ علم ہی کی بدولت ہی کمال عروج پر پہنچے ، بڑے بڑے مراتب حاصل کئے۔ غرض ستر الط ہو یا بقراط، بو علی سینا ہوں یا فردوسی آج بھی ان کا نام عزت واحترام کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ حضرات علم کے سمندر کے مانند تھے اور ایسی دولت کے مالک تھے جسے ہر کوئی حاصل کرنا چاہتا ہے تھا لیکن محنت اور ب کاوش کے بغیر اس کا حصول ناممکن تھا اور آج بھی نا ممکن ہے اس


لئے کہ