شاگرد فعل حال سے آگے نہیں گئے

  کی بول چال سے آگے نہیں گئ does, do


وہ ساڑھی، جیولری کے تحائف پہ تھی بضد

ہم سو روپے کی شال سے آگے نہیں گئے


بیمار ایسے میرے محلے میں ہیں کئی

جو نرس و ہسپتال سے آگے نہیں گئے


کودے ہیں اس کے صحن میں دو چار شیر دل

ہم فیس بک کی وال سے آگے نہیں گئے


نقاد ایسے شہر میں پھرتے ہیں جابجا

جو رینچ ، ریگمال سے آگے نہیں گئے


فرہاد جب بھی عشق کے پٹوارمیں گھسے

شیریں کے انتقال سے آ گے نہیں گئے


دیودار کے وہ ہم کو بتانے لگے خواص

جو کیکروں کی چھال سے آ گے نہیں گئے


غیروں نے اس سے فون پہ گھنٹوں لگائی گپ

 اور ہم ایک مسڈ کال سے آگے نہیں گئے 


مرغے کی رٹ لگائے رکھی ہم نے بھی عزیز

اور میزبان دال سے آگے نہیں گئے.