استاد کا احترام 


انسان دنیا میں کبھی بھی تنہا وقت نہیں گزار تا ، وہ کئی رشتوں ناتوں کے ساتھ جڑار ہتا ہے۔ ان میں سے کچھ رشتے اور تعلق خونی ہوتے ہیں جبکہ بہت سے رشتے اور تعلق روحانی، اخلاقی اور معاشرتی طور پر بنتے ہیں۔ ان ہی میں سے ایک رشتہ استاد کا بھی ہے۔ استاد کو معاشرے میں روحانی والدین کا درجہ حاصل ہے۔ اسلام میں استاد کار تبہ والدین کے رتبے کے برابر قرار دیا گیا ہے۔ کیوں کہ دنیا میں والدین کے بعد اگر کسی پر بچے کی تربیت کی زر داری عائد ہوتی ہے تو وہ معلم یعنی استاد ہے۔ کیونکہ استاد ہی ہے جو ہمیں دنیا میں جینا اور رہنا سہنا سیکھاتا ہے، اور کتابوں کا علم سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ چنانچہ اس لحاظ سے استاد واجب الا احترام شخصیت ہے۔

گویا استاد، معلم، یا مدرس کی تعریف اگر ان الفاظ میں کی جائے تو بے جانہ ھو گا، ایک استاد لوہے کو تپا کر کندن بناتا ہے، پتھر کو تراش کر ہیر اپنا تا ہے، بنجر زمین کو بیچ کر کھلیان بناتا ہے۔ استاد معمار بھی ہے، لوہار بھی ہے، اور کسان بھی ہے۔ استاد واجب الا احترام اور لائق تعظیم ہے۔ استاد کا درجہ ماں، باپ کے برابر قرار دیا گیا ہے یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ایک زمانہ تھا جب طالبعلم حصول علم کی تلاش میں میلوں کا سفر پیدل کرتے تھے، سالہا سال ملکوں ملکوں گھومتے تھے۔ گھر بار سے دور رہ کر اپنے پیا سے من کو سیراب کرتے تھے۔ استادوں کی مار کھاتے تھے ڈانٹ بھگتا تے اور سزا جھیلتے تھے، تب کہیں جا کر نگینہ بنے۔ مگر اس دور کے طالبعلم باادب اور با تمیز ہوتے تھے۔ استاد کے قدموں میں بیٹھنا، استاد کی باتوں کو خاموشی سے سنتا، اور استاد کے سامنے چوں تک نہ کرنا کجا مذاق اڑانا تو دور کی بات نظر اٹھا کر بات کرنے سے بھی ڈرتے تھے۔

وقت نے اپنی اڑان بھری تو انسان بھی ترقی کی کئی منزلیں طے کرتا چلا گیا۔ اور اگر وقت بدلا تو تہذیب اور ادب آداب کے انداز بھی ساتھ ساتھ بدلتے چلے گئے۔ چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ آج کے دور میں استاد بنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے موجودہ دور میں اول تو کوئی استاد بنا پسند نہیں کرتا ہے اور جو بد قسمتی سے بن جاتا ہے وہ اپنی عزت گنوادیتا ہے کیونکہ موجودہ دور کا طالبعلم استاد کو عزت دینے کا روادار نہیں ہے، وہ استاد کو ایک تنخواہ دار ملازم سمجھتا ہے جس کی عزت کرنا وہ ضروری نہیں سمجھتا اور بچوں کی اس سوچ کے سب سے بڑے زمدار خود والدین بھی ہیں جو بچپن سے ہی اپنے بچوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دیتے کہ یہ ہمارا تنخوادار ملازم ہے لہذا انھیں اتنی ہی عزت دو جتنی اور وں کو دی جاتی ہے حقیقتا موجودہ دور کاٹیوشن سسٹم اور اکیڈمی کلچر نے بھی استاد کی عزت کو بہت کم کر دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج علم بھی تقریبانا پید ہو تا جارہا ہے اور اتنے اسکول، اتنے مدرسے ، اتنے کالج اور یونیورسٹیاں بن جانے کے باوجود معاشرے میں اخلاقیات، ادب آداب اور تہذیب نام کو نہیں رہی۔

اسلام نے جہاں مسلمانوں پر حصول علم کو فرض قرار دیا ہے وہاں اسلام کی نظر میں استاد کو بھی معزز مقام حاصل ہے، تا کہ اس کی عظمت سے علم کا وقار بڑھ سکے۔ استاد کی اہمیت علم کی بارش کی سی ہے جو زمین بارش کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے وہ بارش کے فیض سے سر سبز و شاداب ہو جاتی ہے۔ جب ہمارے رسول صہ تعلیم دیتے تھے تو صحابہ کرام اس قدر خاموشی سے بیٹھتے تھے کہ گویا ان کے سروں پر پر نمدے بیٹھے ہوئے ہوں اور انہوں نے زراسی بھی حرکت کی تو وہ اڑ جائیں گے۔

دنیا میں علم کی قدر اس وقت ممکن ہے جب استاد کو معاشرے میں عزت کا مقام حاصل ہو۔ جو طالبعلم استاد کا ادب واحترام کرنا جانتے ہیں اور ان کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے استاد کا کہنا مانتے ہیں وہ ہمیشہ کامیاب و کامران ہوتے ہیں اور دنیا میں بھی وہی عزت و مقام حاصل کرتے ہیں جو انہوں نے اپنے استادوں کو دی اسی لئے کسی سیانے نے کیا خوب کہا ہے ، با ادب ابد نصیب.