Children grooming,
بچوں کی تربیت
"با ادب با نصیب"
گفتگو کے آداب۔
بڑوں سے بات کرنے کی تمیز۔
محفل کے آداب۔
بچوں کو out spoken بنانا،
منہ پھٹ بنانا،
ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی،
بات کرنے کی تمیز نا سیکھانا،
کیا بولنا ہے کیا نہیں،
کیسے بولنا ہے کیسے نہیں،
یہ سب توجہ طلب مسائل ہیں۔
آج کل والدین کی اکثریت بچوں کو اپنا باپ بنا کے پال رہی ھے۔ باپ فرینڈلی ہو گئے ہیں کنٹرول ماں کے ہاتھ میں ھے ماں نے لڑکوں کو گھر میں باندھ کے بٹھا دیا ھے باپ نے لڑکیوں کو شہہ دے دے کے اوور کردیا ھے۔
مائیں اپنے جوان جہان بچوں کی خدمت گزار ہو گئی ہیں۔
باپ صاحبان نے جوتوں سمیت سر پہ چڑھا لیا ھے۔
فیشن ہے باپ کو مذاق میں کچھ بھی بول دو۔
کسی بڑے کو تڑاخ تڑاخ جواب پکڑا دو۔ فیشن ہے۔
سب سے پہلے تو بچے کو یہ سیکھائیں کہ وہ بڑے کو بڑا سمجھے۔
باپ گھر میں آئے تو نوٹس لے، سلام کرئے، پانی کا پوچھے، جوتے پیش کرئے،کتنا ٹائم لگتا ھے اس سب میں صرف پانچ منٹ۔
یہ نہیں کہ باپ آئے یا جائے کوئی نوٹس نہیں کمپیوٹر اور موبائل پہ ٹکٹی فکس ہے تو فکس ہے، جیسے اوندھے پڑے ہیں ویسے ہی پڑے ہیں۔
جو ادھم مچ رہا ہے سو مچ رہا ھے
بڑی بڑی بچیوں کو دیکھا ماں کو کہتے پانی پلا دیں۔
باپ بائیک دھو رہے ہیں گاڑی صاف کر رہے ہیں جوان جہان لڑکے کمروں میں گھسے پتا نہں کون سا مستقبل بنا رہے ہیں۔
مائیں کام کر کر کے گھس گئی ہیں لڑکیاں صرف سجنے سنورنے تک ہیں مجال نہیں ہاتھ بٹا لیں۔
پھر مائیں فخر سے کہتی ہیں ہم نے کبھی بچی سے پانی نہیں مانگا اس کو تو کام کرنے کی عادت ہی نہیں ھے بھئی یہ کون سی فخریہ بات ہے پانی نہیں مانگا آپ نے اپنے بچے کو ثواب سے محروم کیا۔
باپ فخر سے کہتے ہیں جو منہ سے بات نکالتے ہیں پوری کرتے ہیں۔ ہر فرمائش پوری کرتے ہیں۔
آپ نے کبھی نوٹ کیا بچوں کا والدین سے صرف فرمائش کا رشتہ رہ گیا ہے بچوں کی ماں باپ سے بات چیت کا ریکارڈ چیک کر لیں 75٪ فرمائشیں ہیں یہ دلا دیں وہ لا دیں۔
یہ اور بات منہ سے نکلی بات پوری کرنے والے انہی بچوں کی شادی کرتے ہوئے اپنی پسند تھوپیں گے بچوں کی نہیں سنیں گے۔ نا ان کی پسند کو کبھی اپنائیں گے ان کی زندگیاں اجیرن کریں گے یہ پتا نہیں کون سی منافقت ہے۔
بچوں کو سیکھائیں کہ وہ
1. بڑوں کو بڑا سمجھیں۔
2. گھر میں باپ یا کوئی مہمان یا کوئی بھی بڑا داخل ہو تو سب کام چھوڑ کے سلام کریں ادب سے ملیں۔
3. کسی کمرے میں جہاں بچے پہلے سے بیٹھے ہیں کوئی بھی بڑا داخل ہو کھڑے ہو جائیں، جگہ خالی کریں۔
( اکثر تو بڑے خود ہی جگہ تلاش کر رہے ہوتے ہیں کہ کہاں بیٹھیں چھوٹے ٹس سے مس نہیں ہوتے.)
4. بڑوں کی طرف متوجہ ہوں ان کی بات دھیان سے سنیں موبائل فون استعمال نا کریں۔
5. بڑوں کے سامنے کمپوز ہو کے بیٹھیں، ٹانگ پہ ٹانگ نا چڑھائیں، پاوں پھیلا کے بھی نا بیٹھیں،بازو اور ٹانگیں بھی یہاں وہاں بکھیر کے نا بیٹھیں۔
6. بڑوں کی بات مت کاٹیں۔
7. ڈائننگ ٹیبل پہ اب بچے پہلے بیٹھتے ہیں بڑے پیچھے کھڑے رہتے ہیں بچوں کے کھانا مکمل ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔
( ایسا سسٹم بنائیں کہ بچے بڑے سب بیٹھ سکیں)
8. تمیز یہ ہے کہ ڈائننگ ٹیبل پہ کھانا پہلے گھر کے بڑے نکالیں گے پھر بچے۔
اچھے بھلے بڑے بچوں کو سب سے پہلے جلدی جلدی پلیٹیں بھرتے دیکھا۔
9. بڑوں کو کھانا سرو کریں پانی کا گلاس بھر دیں، سالن کا ڈونگہ قریب کر دیں روٹی پلیٹ میں رکھ دیں۔
10. بچے بڑوں کی آواز پہ سنی ان سنی نا کریں۔
پڑھائیوں کے ہوئے بنائے ہوئے ہیں مجھے بتائیں کس کے بچوں نے سارے مینرز، تمیز، تہذیب چھوڑ کے پڑھ پڑھ کے گولڈ میڈل لے کے کون سے کمال کیے ہوئے ہیں ہسپتالوں میں چلے جاو ڈھنگ کا ڈاکٹر نہیں ملتا کسی بھی شعبے میں ایکسٹرا آرڈینری لوگ نہیں ہی آخر یہ 99٪ والا ٹیلنٹ جا کہاں رہا ھے۔
بہتر ھے بچوں کو تمیز تہذیب بھی ساتھ ساتھ سیکھائیں۔ اس سے وقت ضائع نہیں ہوتا تقدیر سنورتی ھے۔
لاکھوں روپے کی فیس دے کے بڑے بڑے سکولز میں پڑھنے والے اکثر بچے محفل میں بیٹھ کے چار لفظ نہیں بول سکتے۔
بڑوں کو چاہیے بچوں کو محفلوں سے اٹھا دینے کے بجائے ان کو محفلوں میں شامل کریں وقت بدل گیا ھے ان سے رائے طلب کریں بات چیت کریں۔
بچوں سے مختلف موضوعات پہ تبادلہ خیال کی غرض سے سوال جواب کریں۔
جب بھی کوئی بڑا فیصلہ کریں بچوں کو مکمل سیاق و سباق سمجھائیں ان کی رائے لیں اپنے فیصلے کی وجوہات اور نقطہ نظر کی وضاحت کریں۔
بچہ جس بھی عمر میں ہے اسے اپنے ساتھ محفلوں میں بٹھائیں وہ آپ کے تجربات سے، گفتگو سے، طرز عمل سے، سیکھے۔
بچے کو گفتگو میں شامل کریں۔
آج کل بچے کمرے اور موبائل فون تک کیوں محدود ہیں اس ٹرینڈ کو ختم کریں۔
0 Comments