
( جنات کا سائنسی تجزیہ )
ایک سائنسدان کے قلم سے۔۔۔۔
بہت دلچسپ تجزیہ ۔۔۔ضرور پڑھیں
جنات اللّٰہ کی مخلوق ہیں یہ ہمارا یقین ھے ،
وہ آگ سے پیدا کیئے گئے ،
ان میں شیاطین و نیک صفت دونوں موجود ہیں
اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ھے
یہ فیچر جنات کی سائینٹفیک تشریح کے بارے میں ھے ۔
کیا وہ ہمارے درمیان موجود ہیں ؟
اور زیادہ اہم سوال یہ کہ ھم انہیں دیکھ کیوں نہیں سکتے ؟
لفظ جن کا ماخذ ھے ‘‘نظر نہ آنے والی چیز’’ اور اسی سے جنت یا جنین جیسے الفاظ بھی وجود میں آئے ۔
جنات آخر نظر کیوں نہیں آتے ؟
اس کی دو وجوہات بیان کی جا سکتی ہیں ۔
پہلی وجہ یہ کہ انسان کا ویژن بہت محدود ھے ۔
اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں جو (electromagnetic spectrum)
بنایا ھے اس کے تحت روشنی کی 19 اقسام کی ہیں ۔
جس میں سے ہم صرف ایک قسم کی روشنی دیکھ سکتے ہیں جو سات رنگوں پر مشتمل ھے ۔
میں آپ کو چند مشہور اقسام کی روشنیوں کے بارے میں مختصراً بتاتا ہوں ۔
اگر آپ gamma-vision میں دیکھنے کے قابل ہو جائیں تو آپ کو دنیا میں موجود ریڈی ایشن نظر آنا شروع ہو جائے گی ۔
اگر آپ مشہور روشنی x-ray vision میں دیکھنے کے قابل ہوں تو آپ کے لیئے موٹی سے موٹی دیواروں کے اندر دیکھنے کی اہلیت پیدا ہو جائے گی ۔
اگر آپ infrared-vision میں دیکھنا شروع کر دیں تو آپ کو مختلف اجسام سے نکلنے والی حرارت نظر آئے گی ۔
روشنی کی ایک اور قسم کو دیکھنے کی صلاحیت
ultraviolet-vision
کی ہو گی جو آپ کو انرجی دیکھنے کے قابل بنا دے گا ۔
اس کے علاوہ microwave-vision اور
radio wave-vision
جیسی کل ملا کر 19 قسم کی روشنیوں میں دیکھنے کی صلاحیت سپر پاور محسوس ہونے لگتی ھے ۔
کائنات میں پائی جانی والی تمام چیزوں کو اگر ایک میٹر کے اندر سمو دیا جائے تو انسانی آنکھ صرف 300 نینو میٹر کے اندر موجود چیزوں کو دیکھ پائے گی ۔
جس کا آسان الفاظ میں مطلب ھے کہ ھم کل کائنات کا صرف %0.0000003 فیصد حصہ ہی دیکھ سکتے ہیں ۔
انسانی آنکھ کو دکھائی دینے والی روشنی visible light کہلاتی ھے اور یہ الٹرا وائلٹ اور انفراریڈ کے درمیان پایا جانے والا بہت چھوٹا سا حصہ ھے ۔
ہماری دنیا میں ایسی مخلوقات موجود ہیں جن کا visual-spectrum
ھم سے مختلف ھے ۔
سانپ وہ جانور ھے جو انفراریڈ میں دیکھ سکتا ھے
ایسے ھی شہد کی مکھی الٹراوائلٹ میں دیکھ سکتی ھے ۔
دنیا میں سب سے زیادہ رنگ مینٹس شرمپ کی آنکھ دیکھ سکتی ھے ،
الو کو رات کے گھپ اندھیرے میں بھی ویسے رنگ نظر آتے ہیں جیسے انسان کو دن میں ۔
امریکن کُک نامی پرندہ ایک ہی وقت میں 180 ڈگری کا منظر دیکھ سکتا ھے ۔
جبکہ گھریلو بکری 320 ڈگری تک کا ویو دیکھ سکتی ھے ۔
درختوں میں پایا جانے والا گرگٹ ایک ہی وقت میں دو مختلف سمتوں میں دیکھ سکتا ھے
جبکہ افریقہ میں پایا جانے والا prongs نامی ہرن ایک صاف رات میں سیارے saturn کے دائرے تک دیکھ سکتا ھے ۔ اب آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ انسان کی دیکھنے کی حِس کس قدر محدود ھے اور وہ اکثر ان چیزوں کو نہیں دیکھ پاتا جو جانور دیکھتے ہیں ۔
ترمذی شریف کی حدیث نمبر 3459 کے مطابق نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ
جب تم مرغ کی آواز سنو تو اس سے اللّٰہ کا فضل مانگو کیوں کہ وہ اسی وقت بولتا ھے جب فرشتوں کو دیکھتا ھے.........
اور جب گدھے کی رینکنے کی آواز سنو تو شیطان مردود سے اللّٰہ کی پناہ مانگو کیوں کہ اس وقت وہ شیطان کو دیکھ رہا ہوتا ھے ۔
جب میں نے مرغ کی آنکھ کی ساخت پر تحقیق کی تو مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ مرغ کی آنکھ انسانی آنکھ سے دو باتوں میں بہت بہتر ھے ۔
پہلی بات کہ جہاں انسانی آنکھ میں دو قسم کے
light-receptors
ہوتے ہیں وہاں مرغ کی آنکھ میں پانچ قسم کے لائیٹ ریسیپٹرز ہیں ۔
اور دوسری چیز fovea جوانتہائی تیزی سے گزر جانے والی کسی چیز کو پہچاننے میں آنکھ کی مدد کرتا ھے جس کی وجہ سے مرغ ان چیزوں کو دیکھ سکتا ھے جو روشنی دیں اور انتہائی تیزی سے حرکت کریں
اور اگر آپ گدھے کی آنکھ پر تحقیق کریں تو آپ دیکھیں گے کہ اگرچہ رنگوں کو پہچاننے میں گدھے کی آنکھ ھم سے بہتر نہیں ھے لیکن گدھے کی آنکھ میں rods کی ریشو کہیں زیادہ ھے اور اسی وجہ سے گدھا اندھیرے میں درختوں اور سائے کو پہچان لیتا ھے یعنی آسان الفاظ میں گدھے کی آنکھ میں اندھیرے میں اندھیرے کو پہچاننے کی صلاحیت ھم سے کہیں زیادہ ھے ۔
البتہ انسان کی سننے کی حِس اس کی دیکھنے کی حس سے بہتر ھے اگرچہ دوسرے جانوروں کے مقابلے میں پھر بھی کم ھے
مثال کے طور پہ نیولے نما جانور بجو کے سننے کی صلاحیت سب سے زیادہ یعنی 16 ہرٹز سے لے کر 45000 ہرٹز تک ھے
اور انسان کی اس سے تقریباً آدھی یعنی 20 ہرٹز سے لے کر 20000 ہرٹز تک ۔
اور شاید اسی لیئے جو لوگ جنات کے ساتھ ہوئے واقعات رپورٹ کرتے ہیں وہ دیکھنے کے بجائے سرگوشیوں کا زیادہ ذکر کرتے ہیں ۔
ایک سرگوشی کی فریکوئینسی تقریباً 150 ہرٹز ہوتی ھے
اور یہی وہ فریکوئینسی ھے
جس میں انسان کا اپنے ذہن پر کنٹرول ختم ہونا شروع ہوتا ھے ۔
اس کی واضح مثال
ASMR
تھراپی ھے
جس میں 100 ہرٹز کی سرگوشیوں سے آپ کے ذہن کو ریلیکس کیا جاتا ھے ۔
اس تجزیہ کے شروع میں ، میں نے جنات کو نہ دیکھ پانے کی دو ممکنہ وجوہات کا ذکر کیا تھا جن میں سے ایک تو میں نے بیان کر دی لیکن
دوسری بیان کرنے سے پہلے میں ایک چھوٹی سی تھیوری سمجھانا چاہتا ہوں ۔
سنہء 1803 میں ڈالٹن نامی سائنسدان نے ایک تھیوری پیش کی تھی کہ کسی مادے کی سب سے چھوٹی اور نہ نظر آنے والی کوئی اکائی ہو گی اور ڈالٹن نے اس اکائی کو ایٹم کا نام دیا ۔
اس بات کے بعد 100 سال گزرے جب تھامسن نامی سائنسدان نے ایٹم کے گرد مزید چھوٹے ذرات کی نشاندہی کی جنہیں الیکٹرانز کا نام دیا گیا ۔
پھر 7 سال بعد ردرفورڈ نے ایٹم کے نیوکلیئس کا اندازہ لگایا ،
صرف 2 سال بعد بوہر نامی سائنسدان نے بتایا کہ الیکٹرانز ایٹم کے گرد گھومتے ہیں
اور دس سال بعد 1926 میں شورڈنگر نامی سائنسدان نے ایٹم کے اندر بھی مختلف اقسا
0 Comments