قرآن کا خدا اور ہمارا تصور


ہم اپنے ذہنوں میں خدا کا ایک تصور پالتے ہیں۔ یہ تصور ہم کو ہمارے گھروں، اسکول دوسروں وغیرہ سے ملتا ہے۔ یہ ایک ایسے خدا کا تصور ہے جو کو ذاتی طور پر، بہت پسند کرتا ہے، ہمارا ہر مسئلہ اسکا مسئلہ ہوتا ہے، ہماری ہر دعا اسکو عزیز ہوتی ہے اور وہ پوری کوشش کرتا ہے کہ ہماری ہر دعا کو قبول کرے۔ دعا قبول نہ ہونے کی صورت میں اس کا بہتر نعم البدل دیتا ہے یا پھر اگر ہم دعائیں کرتے رہیں اور وظائف وغیرہ کا تڑکہ بھی لگائیں تو وہ ہماری مرضی ہی پوری کرتا ہے۔


ہم سب یہ بھی جانتے ہیں کہ ایسا بالکل بھی نہیں ہوتا مگر ہمارا اعتقاد یہی رہتا ہے۔ کئی لوگ دعاؤں کی نامقبولیت کی وجہ سے شکوک و شبہات کا شکار ہوتے ہیں۔


ہمارا اصل مسئلہ ہے کہ ہم خدا کو سمجھتے نہیں۔ پورے قرآن یا سیرت میں صرف دعا سے کچھ نہیں ہوا۔ ہر چیز سے پہلے کوئی نہ کوئی کام یا عمل ضرور ہے۔بہترین کوشش اور لائحہ عمل ضرور ہے، مجرد دعا نہیں۔ 

1. معراج پر لے جانے والا خدا رسول اللہ کو مکہ سے مدینہ نہیں لے جاتا۔ آپ کو مکے سے نکل کر غار ثور میں پناہ لیتے ہیں، کئی دن گزارتے ہیں اور پھر ایک گائیڈ کے ساتھ مدینے آتے ہیں۔ طائف سے واپسی پر بغیر امان لیے مکے میں داخل نہیں ہوتے۔

2. من و سلوی نازل کرنے والا خدا رسول خدا اور صحابہ کو کوئی کھانا نہیں دیتا شعب ابی طالب کے بائیکاٹ میں، کیا قادر نہ تھا؟

3. سمندر کو پھاڑنے والا خدا بھی مطالبہ کرتا ہے کہ پہلے عصا مارو، کیا صرف دعا سے نہیں کرسکتا تھا؟

4. ایوب علیہ اسلام کو بیماری سے شفا کے لیے حکم ہوتا ہے کہ چشمے پر نہاؤ، کیا صرف دعا سے شفا دینے پر قادر نہیں تھا؟

5. نوح علیہ السلام کو کشتی بنانے کا حکم ہوا۔ کیا اسکے بغیر بچانے پر قادر نہیں تھا؟

6. یوسف علیہ السلام نے بھی اپنے والد کے لیے کرتا بھیجا کہ انکی آنکھیں درست کرنے کے لیے، کیا ضرورت پیش آگئی؟ دعا سے نہ درست ہوسکتی تھیں؟

غرض آپ کو کوئی قصہ ایسا نہیں ملے گا جہاں کوئی عمل نہ ہو۔ جہاں صرف دعاؤں کا ذکر ہے وہاں بھی پہلے کوئی عمل یا سبب ضرور دکھے گا۔ 

اللہ ململ قادر اور مکمل اقتدار کے ساتھ بھی بغیر انسانی عمل کے کچھ نہیں کرتا۔ یہ اللہ کی سنت ہے، یہ کبھی نہیں بدلے گی۔


مکمل، شدید اور کامل کوشش کے بعد ہی اللہ کی رحمت آکر ہاتھ تھامتی ہے۔ جب اس نے اپنے معجزات بغیر عمل کے نہیں دکھائے تو پھر صرف ہماری دعاؤں سے مسلمانوں کی اجتماعی حالت آخر کس اصول کے تحت بغیر کوشش کے بدلے گا؟ 

ہم بغیر حفظان صحت کے اصولوں کی پابندی کے ہارٹ اٹیک شوگر یا فالج سے کیا صرف دعا مانگ کر بچ سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں

تو پھر صرف دعائیں مانگ کر امن و امان، ایماندار حکمران، بہتر نوکری کس طرح مل سکتے ہیں؟؟؟؟

اللہ نے یہ دنیا اسباب پر بنائی ہے، وہ خود بھی کوئی نہ کوئی ظاہری سبب ضرور اختیار کرتا ہے۔ ہر مقبول دعا کے پیچھے اسباب کا سلسلہ ہوتا ہے۔ 


آج کے مسلمان کا اب سے پہلے اپنا “تصور خدا” درست کرنا ہوگا۔ قرآن کو آنکھیں کھول کر پڑھنا ہوگا۔ ہم خدا کی فیورٹ قوم نہیں ہیں دنیا وہ معاملات میں۔ صرف زبان ہلانے سے وہ اسباب نہیں بدلے گا ہمارے حق میں۔ 

ہر سال حج و عمرہ پر بڑھتا ہوا رش، نمازیوں کی قطاریں، مدراس و مساجد کا ہجوم، حفاظ کی بڑھتی ہوئی تعداد، صدقات و خیرات کی بڑھتی مقدار اور اجتماعی دعائیں اور توبہ کے باوجود مسلمان ذلیل سے ذلیل تر ہوتے جارہے ہیں، کیوں؟؟ صرف اس لیے کہ ہمارا تصور خدا غلط ہے۔ ہم سبب کے بغیر، قربانیوں سے بچ کر اور مشکلات کا سامنا کیے بغیر امید لگائے بیٹھے ہیں کہ بس ہماری دعاؤں سے خدا ہمارے دشمنوں کو بندر بنا دے!